ملتان گھنٹہ سے دائیں جانب اگر آپ نظر نہ بھی اٹھانا چاہیں تو آپ کی نظر لاشعوری طور پر حضرت شاہ رکن عالم کے مزار کی جانب اٹھ جائے گی۔ شاہ رکن عالم جو بہاالدین زکریا کے پوتے اور صدر الدین کے فرزند تھے، اپنے دادا اور والد محترم کے پاس ہی قلعہ قاسم یا قاسم باغ میں دفن ہیں۔ احباب جانتے ہیں کہ پہلے ہمیشہ قلعہ ایک بلند ٹیلے پر تعمیر کیا جاتا تھا۔ ملتان کا شہر بھی ایک بلند ٹیلے پر ہی تعمیر کیا گیا تھا جس کے ایک جانب دریائے راوی بہتا تھا۔ آپ قلعہ میں مرکزی دروازے سے داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت شاہ رکن عالم کا مزار ہے جو کہ ملتان شہر کی پہچان ہے۔ ملتان شہر تقریباً چھ ہزار سال پرانا ہے۔ یہاں تک کہ ایک فرعون کے شواہد بھی یہاں ملتے ہیں جس نے ملتان پر حملہ کیا تھا۔ یہی پر سکندر اعظم کو وہ زہریلا تیر بھی لگا تھا جو اس کی موت کی وجہ بنا۔ شاہ رکن عالم نو رمضان 649 ہجری میں پیدا ہوئے۔ دادا حضرت بہاء الدین زکریا نے ان کا نام رکن الدین رکھا۔ حضرت بہاء الدین زکریا جو کسی بھی تعارف کے مختاج نہیں ۔ روایت ہے کہ چھ سال کی عمر میں ایک بار بچے رکن الدین نے دادا بہاالدین زکریا کی دستار پہن لی۔ باپ صدر الدین نے اسے گستاخی جان کر بچے پر ڈانٹ ڈپٹ کی تو دادا نے اپنے بیٹے یعنی رکن الدین کے باپ صدر الدین سے کہا کہ اسے مت ڈانٹو۔ میرے بعد یہ اسی کے سر پر رکھی جائے گی اور پھر شاہ رکن عالم کے گدی نشین ہونے پر وہی دستار آپ کے سر پر رکھی گئی۔ صدر الدین کے بارے ایک روایت ہے کہ جب ایک بار وہ حج کے لیے مکہ میں تھے تو کسی شہزادی نے آپ کی پیشانی چمکتی ہوئی دیکھی۔ اس نے صدر الدین کے بارے معلومات لیں اور واپسی پر اپنے باپ جو ایک سلطان تھے، کے ساتھ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ بعد ازاں ان کی شادی صدر الدین سے کر دی گئی جن کے بطن سے رکن الدین پیدا ہوئے ۔ یہاں ایک اور روایت بھی ہے کہ رکن الدین جب ماں کے پیٹ میں تھے تو ان کی والدہ ہر روز ایک قرآن ختم کرتیں تھیں ۔ اسی لئے رکن الدین کو پیدائشی طور پر چودہ پارے حفظ تھے۔ (اب یہ آپ پر ہے کہ آپ اس روایت کو محض کہانی سمجھتے ہیں یا یہاں سبحان اللہ کہتے ہیں).
آپ قلعہ کے اندر چلتے جائیں تو آگے آپ کو بہاالدین زکریا کا چھوٹا سا مزار ملے گا جن کے پہلو میں ان کے بیٹے اور رکن الدین کے باپ صدر الدین دفن ہیں ۔ شاہ رکن عالم کو بھی وفات کے بعد دادا بہاالدین زکریا کے قدموں میں دفن کیا گیا۔ اس وقت حکمران سلطان ریاض الدین تغلق تھا جس نے اپنے لیے ایک خوبصورت مقبرہ بنایا تھا اور وصیت کی کہ مرنے کے اسے وہیں دفن کیا جائے۔ ریاض الدین تغلق نے اپنی زندگی میں ہی شاہ رکن عالم سے درخواست کی تھی کہ وہ اسی عمارت میں لوگوں کے درس و تدریس کا کام کیا کریں چنانچہ رکن الدین نے اسی عمارت کو اپنا مسکن بنایا ۔ ریاض الدین تغلق کا انتقال جس وقت ہوا، وہ دہلی میں تھا۔ اسے ملتان کی مٹی نصیب نہ ہوئی۔ وہیں دہلی میں ہی انھیں دفن کیا گیا۔ یہاں جب شاہ رکن عالم کا انتقال ہوا تو انھیں دادا کے قدموں میں جگہ ملی مگر محمد شاہ تغلق کی حکمرانی کے وقت اسے ایک رات حضرت بہاالدین زکریا کی خواب میں زیارت ہوئی اور ان ہی کے حکم پر محمد شاہ تغلق نے شاہ رکن عالم کے جسد خاکی کو حضرت بہاء الدین زکریا کے پاس سے اس مقبرے میں منتقل کیا۔ حضرت شاہ رکن عالم کی خواجہ نظام الدین اولیاء اور امیر خسرو، دونوں سے عقیدت تھی اور دونوں کی ہی نماز جنازہ حضرت شاہ رکن عالم نے پڑھائی تھی۔
1975 میں مزار کے ساتھ ایک مسجد بھی بنائی گئی ۔ مسجد پرانی نہیں مگر اس کو مزار کی طرز پر ہی بنایا گیا تھا تاکہ یہ اسی وقت کی معلوم پڑے۔ مقبرے کے ساتھ پہلے ایک وسیع قبرستان تھا مگر جب مقبرے کی عمارت کو وسیع کرنے کے لیے قبرستان کو ختم کیا گیا تو 75 قبریں ایسی تھیں جن کے کفن ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی میلے نہ ہوئے تھے۔ آپ جب شاہ رکن عالم کے مقبرے کے احاطے میں داخل ہوں تو دیکھ سکتے ہیں کہ زمین پر مختلف جگہوں پر قبر لکھا ہے۔ یہ اصل میں ان ہی قبروں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ انہی کے نیچے وہ اصل قبریں ہیں۔ شاہ رکن عالم کے یہاں دفن ہونے کے بعد ان کے کئی رفقاء اور رشتے داروں کو بھی ان ہی کے ساتھ دفن کیا گیا۔ ان تمام قبروں کے تعویذ شاہ رکن عالم کی قبر کے تعویذ کے ساتھ ہی موجود ہیں جبکہ شاہ رکن عالم سمیت سب کی اصل قبر بہت نیچے ہے۔
No comments:
Post a Comment