Sunday, January 21, 2024

Ghunta Ghar Multan

سکھوں نے پنجاب پلیٹ میں رکھ کر انگریزوں کو نہیں سونپا تھا ۔ وہ لڑے اور آخری دم تک لڑے تھے۔ اگرچہ کہ سکھوں نے کوئی خاص اچھا سلوک مسلمانوں یا مساجد کے ساتھ نہیں کیا۔ تاریخی مساجد جن میں لاہور کی بادشاہی مسجد، بھیرہ کی شیر شاہ سوری مسجد اور چنیوٹ کی شاہی مسجد سمیت تقریباً ہر بڑی مسجد کو اصطبل بنا دیا گیا۔ جتنی قوت سے انھوں نے پنجاب حاصل کیا تھا، اس سے زیادہ قوت انھوں نے پنجاب کو بچانے پر لگا دی مگر پنجاب کے بہادر سپوت یہاں ہار گئے اور ملتان سمیت پورا پنجاب رفتہ رفتہ سکھوں سے انگریزوں کے پاس چلا گیا۔ انگریزوں نے پنجاب کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد یہاں کے انتظامی امور پر بھرپور توجہ دی۔ ملتان میں احمد خان سدوزئی کی حویلی تھی جسے انگیز سکھ جنگ میں بہت نقصان پہنچا تھا مگر پھر بھی ذرا اچھی حالت میں تھی۔ انگریزوں نے اسے اپنی تحویل میں لیا، مناسب تبدیلیاں کرنے کے بعد اسے 1849 میں میونسپل کمیٹی کا دفتر بنا دیا گیا۔ شروع میں اسے ہندوستان کے وائسرائے کی مناسبت سے Ribbon Hall کا نام دیا گیا جو 1884-88 تک ہندوستان کے وائسرائے رہے تھے۔ اسی دوران عمارت کے داخلی حصے پر ایک اضافی مینار تعمیر کیا تھا۔ چاروں اطراف بڑے گھڑیال نصب کئے گئے اور اسے گھنٹہ گھر کا نام دیا گیا۔ آج یہی احمد خان سدوزئی کی حویلی ملتان گھنٹہ گھر کہلاتی ہے اور اس سے منسلک ہال کو جناح ہال کہا جاتا ہے۔ ملتان کا گھنٹہ گھر اس لئے بھی منفرد ہے کہ گھنٹہ گھر عام طور پر ایک چوک میں بنایا جاتا ہے مگر یہ کسی چوک میں نہیں ۔ ہاں چوک کے قریب ضرور ہے۔ غالباً 1985 میں ہی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے میونسپل کمیٹی کو یہاں سے منتقل کر دیا گیا۔ گھڑیاں خراب ہو گئیں اور پھر خراب ہی رہیں۔ 2011 میں سوئس کمپنی Rado نے مشہوری کے عوض ہی سہی اپنی گھڑیاں یہاں نصب کیں مگر گھڑیوں کی سوئیاں تبدیل نہیں کی گئیں ۔

No comments:

Post a Comment