اگر آپ جنوبی پنجاب کی سیاحت کو نکلیں ہیں تو جتوئی شہر کے ایک چھوٹے سے قصبے کوٹلہ رحم علی میں بنی سکینہ الصغریٰ مسجد دیکھے بنا گھر آنا یقیناً زیادتی ہو گی۔ مسجد کی بنیاد 31 جنوری 2006 میں ڈاکٹر اسماعیل احمد حسین بخاری نے اپنے چھوٹے بھائی سید شکیل احمد حسین کے ساتھ رکھی تھی۔ مسجد کا نام دونوں بھائیوں کی والدہ اور پھوپی کے ناموں کو جوڑ کر رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر بخاری جو 1975 سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک عرصے سے خواہش تھی کہ وہ اپنے آبائی علاقے میں ایک عظیم الشان مسجد قائم کریں۔ مسجد سکینہ الصغریٰ جسے نہ صرف ترک انجنیئر نے تعمیر کروایا بلکہ اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والا سامان اور کاری گر بھی ترکی سے ہی آئے۔ مسجد کو آیا صوفیہ کی طرز پر ہی تعمیر کیا گیا ہے۔ آپ جتوئی سے ڈیرہ غازی خان کو جاتی گاڑی میں اگر سوار ہوں تو آپ کو کوٹلہ رحم علی شاہ سٹاپ پر ہی اترنا پڑے گا۔ یہیں سے آپ کو مسجد کے بلند و بالا مینار بھی نظر آنا شروع ہو جائیں گے جن کی بلندی تقریباً 55 فٹ ہے۔ کوٹلہ سٹاپ سے تقریباً پانچ منٹ پیدل چلنے کے بعد آپ مسجد سکینہ الصغریٰ میں داخل ہو جائیں گے۔ مسجد کا رقبہ 52 ایکڑ ہے جس کے آغاز پر ہی دو بڑے بڑے لان ہیں۔ جہاں پودوں کی تراش خراش ایسے کی گئی ہے کہ بڑا سا لفظ اللہ اور اسمِ محمد وجود میں آ چکا ہے۔ مسجد تین منزلہ ہے۔ نماز نیچے والی منزل میں ہوتی ہے۔ اوپر والی دونوں منازل عام طور پر بند ہوتی ہیں جنھیں صرف سیاحوں کے لئے کھولا جاتا ہے۔ زیریں منزل کے علاؤہ آپ بالائی منزل سے بھی سیڑھیوں کے ذریعے مسجد میں داخل ہو سکتے ہیں۔ مرکزی ہال کے درمیان میں ایک بڑا سا جھومر لگا ہے جو واقعی میں مسجد کے ماتھے کا جھومر ہے۔ مسجد کے اندر آپ کو جنوبی پنجاب کا روایتی نیلا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ آپ اگر زیریں منزل سے مسجد میں داخل ہوں تو جھومر کے پاس جا کر لیٹ جائیں۔ آپ کی نگاہ سیدھا اوپر والے گنبد پر جائے گی۔ پہلی منزل کے ہال پر بالکل ویسے ہی چاروں خلفائے راشدین کے ناموں کے علاؤہ حضرت حسن اور حسین کے نام کی خطاطی کی گئی ہے جس طرح ترکی کی آیا صوفیہ میں ۔ مسجد کا گنبد بھی آیا صوفیہ جیسا ہے اور مینار بھی۔ مسجد پر پہلی نظر ڈالتے ہی آپ پہنچان جاتے ہیں کہ اسے آیا صوفیہ کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ مسجد کے ساتھ ہی ایک سکول بھی بنایا گیا ہے جہاں مستحق بچوں کو ہاسٹل کی سہولت بھی دی گئی ہے ۔ بچے سکول میں دینی تعلیم کے علاؤہ دنیوی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔ مسجد کو ڈیرھ سال کے قلیل عرصے میں تعمیر کیا گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment