پڑھنے کے حوالے سے میرے لئے ناپسندیدہ ترین موضوع ایک عرصے سے ہندوستان کی تقسیم رہا ہے کہ دکھ پڑھنے اور اسے مسلسل برداشت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ شروع میں ایسا نہیں تھا۔ پہلے پہل تاریخ اور خاص کر ہندوستان کی تاریخ اور تقسیم میرا پسندیدہ موضوع رہا۔ مگر اب ایسا نہیں ۔ شاید آپ کو یہ بات غلط لگے مگر اب واقع اس موضوع کو پڑھنا اچھا نہیں لگتا۔ جتنا پڑھا، جیسا پڑھا، یہی محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ہندوستان کی کوششوں سے زیادہ ہندوؤں کی ہٹ دھرمی کے باعث وجود میں آیا ۔ پہلے پہل شاید قائد بھی یہی چاہتے تھے کہ ایک برصغیر میں داخلی طور پر ایک خود مختار ریاست بنے مگر یہ ہندوؤں کی ہی ہٹ دھرمی تھی کہ انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔ یہ بھی ہندوؤں کی ہی چالاکی تھی کہ ایک الگ خود مختار ایسی ریاست مسلمانوں کو دی جس کا قائم رہنا اس وقت ہر ایک کو تقریباً نا ممکن ہی نظر آتا تھا۔ آپ افواج سے لے کر اثاثہ جات کی تقسیم کا احوال دیکھ لیں۔ 1948 کی پہلی پاک بھارت جب جنگ لگی تو پاکستان کے پاس مکمل افواج تھی ہی نہیں ۔ نہ فوج پوری تھی ، نہ اسلحہ ۔ یہ بھی گلگت بلتستان اور کشمیر کے مقامی افراد کی مہربانی تھی کہ پورے کا پورا بلتستان اور کشمیر کا 17 فی صد ہماری جھولی میں ڈال دیا ورنہ ہم اس پورے خطے سے محروم رہتے۔
خیر جو ہوا سو ہوا۔ لیکر کھینچ دی گئی ۔ یہاں سے لوگ وہاں چلے گئے اور وہاں سے یہاں آ گئے ۔ گھر تو اجڑنے ہی اجڑے، عبادت گاہیں بھی اجڑ گئیں۔ جب پجاری نہ رہے تو پھر خدا نے وہاں رہ کر کیا کرنا تھا۔ ہر عبادت گاہ کا خدا بھی اپنے پجاریوں کے ساتھ سرحد پار کر گیا۔ پہلے پہل لوگوں کا خیال تھا کہ یہ سب کچھ وقتی ہے۔ کچھ ہی ماہ بعد وہ سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے مگر یہ سب وقتی نہیں بلکہ ایک ناسور بن کر سب کو چمٹ گیا۔ ایک ایسا ناسور جس کا اب کوئی علاج نہیں ۔ مجھے لگتا ہے اگر قائد اور گاندھی جی ، دونوں کم از کم پانچ سال زندہ رہتے تو آج کا پاکستان بھی بہت رویوں کے اعتبار سے بہت مختلف ہوتا اور بقیہ ہندوستان بھی۔ ایک بار کہیں گاندھی کا انٹرویو پڑھ رہا تھا۔ وہ کہہ رہے کہ تقسیم کا معاملہ مکمل ہونے کے بعد وہ خود یہاں (ہندوستان) سے کچھ ہندو لاہور میں جا بسائیں گے اور وہاں سے کچھ مسلمان دلی لائیں گے۔ مگر دونوں ممالک کی قسمت تو دیکھیں کہ دونوں ممالک کے بڑے لیڈروں گاندھی اور جناح کو راستے سے ہٹا دیا گیا۔ ایک کو براہ راست گولی ماری گئی اور دوسرے کی ایمبولینس میں پٹرول ہی ختم ہو گیا۔ کچھ مزید آگے جائیں تو مجیب الرحمٰن کا اختتام بھی آپ کو گاندھی اور جناح جیسا ہی معلوم پڑتا ہے۔
No comments:
Post a Comment