یہ اٹک قلعہ سے منسلک شمشان گھاٹ ہے. نہ صرف اکبر کے دورِ حکومت بلکہ ہر حکومت میں ہندو بھی بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے. اس جگہ چونکہ دریا کا پاٹ بہت چوڑا ہے، لہٰذا یہی وہ مقام ہے جہاں سے دریا پار کر کے دوسری طرف جایا تھا. دریا کے اِس جانب جس طرف قلعہ ہے پنجاب ہے، جبکہ دریا کو پار کرتے ہی خیبرپختونخواہ شروع ہو جاتا ہے. خیبرپختونخواہ کا پہلا قصبہ " خیر آباد" ہے. اس قصبے کو بھی اکبر بادشاہ کے دور میں ہی آباد کیا گیا تھا. روایت ہے کہ جب اپنے سوتیلے بھائی کامران مرزا کی بغاوت کو کچلنے کے لئے (دریا میں طغیانی کے باعث )اکبر کو کافی وقت اٹک میں ہی قیام کرنا پڑا تو دریا پار ہوتے ہی اکبر کے منہ سے "خیر آباد" نکلا یعنی کہ ہم خیریت سے یہاں پہنچ گئے. وہی کسی درباری نے تجویز پیش کر دی ہو گی کہ اس جگہ ایک بستی بنائی جائے جسے خیر آباد کا نام دیا جائے ۔ بادشاہ کو یہ تجویز یقیناً پسند آئی ہو گی اور اس طرح اس بستی کا نام خیر آباد رکھ دیا گیا. ویسے اٹک بھی کوئی نیا نام نہیں ہے. یہ نام بھی اکبر بادشاہ سے پہلے کا چلا آ رہا ہے. احباب جانتے ہیں کہ چونکہ نیم پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے اس جگہ پہنچ کر دریائے سندھ کافی اٹکتا تھا، اس لئے اس علاقے کو اٹک کہا جانے لگا۔ یہی پر کابل سے آنے والا دریائے کابل اور دریائے سندھ ایک ہو جاتے ہیں.
سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ جب رنجیت سنگھ کی حکومت بنی تو وہ اسی شمشان گھاٹ میں بیساکھی کا میلہ بھی منعقد کروایا کرتا تھا.
کہا جاتا ہے کہ مغل بادشاہ جہانگیر (شہزادہ سلیم) نے اسی قلعے سے اپنی شراب نوشی کا آغاز کیا. شاید افغانستان سے اس وقت کوئی اچھی کھیپ آئی ہو گی اور اٹک تھا بھی دہلی سے کافی دور، اس لئے اکبر بادشاہ شیخو پر نظر نہیں رکھ سکے ہوں گے. جہانگیر کی موت بھی کثرتِ شراب نوشی کے باعث ہوئی تھی کہ ایک بار جب جہانگیر اپنی سالانہ تعطیلات کے باعث کشمیر کی وادی باغسر میں تھے تو واپسی پر طبعیت ایسی بگڑی کہ اس جہانِ فانی سے ہی کوچ کر گئے ۔ باغسر لاہور سے دور تھا اور باغسر سے نعش لاہور لاتے لاتے یقیناً اس نے خراب ہی ہونا تھا. ایسے میں حکماء نے جہانگیر کے پیٹ کو چیر کر سارے اعضاء باہر نکالے، انھیں باغسر قلعے کے ساتھ دفن کیا اور بقیہ نعش کو لاہور روانہ کر دیا گیا. اس لئے مغل بادشاہ جہانگیر کی دو قبریں ہیں. ایک وہ جو مقبرہ جہانگیر کے نام سے مشہور ہے اور لاہور میں ہے جبکہ دوسری قلعہ باغسر کے باہر ہے جہاں شہزادہ سلیم کے فقط اندرونی اعضاء دفن ہیں.
No comments:
Post a Comment