Monday, January 22, 2024

Anab Shareef Temples

 


انب شریف
اگر آپ کسی نہ کسی طریقے سے اچھالی تک پہنچ ہی چکے ہیں تو پھر تھوڑی سی ہمت مزید کریں اور لگے ہاتھوں "انب شریف " بھی چلے جائیں. اچھالی سے "قائد آباد " کو جاتی ایک پکی سڑک حال ہی میں تعمیر ہوئی ہے جو کہ بمشکل دو سال ہی نکال پائے گی۔ ایک کچا راستہ بھی ہے مگر جب تک سڑک سلامت ہے تب تک تو ظاہری بات ہے سڑک ہی بہتر ہے. ابتدا میں گھومن گھیریاں بہت ہیں. انتہائی اختیاط کے ساتھ آپ کو بائیک یا گاڑی چلانی پڑے گی. سیدھا راستہ بالکل بھی نہیں ہے. کہیں کہیں سے سڑک ٹوٹ بھی چکی ہے اور اب وہاں چھوٹے چھوٹے پتھر پڑے ہیں. اچھالی کے بازار سے جو سڑک دائیں جانب جھیل کی طرف جاتی ہے، دائیں مڑنے کی بجائے اگر آپ سیدھا چلے جائیں گے تو ٹھیک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد آپ انب شریف میں ہوں گے ۔ اچھالی چوک میں ہی کونے پر ایک مرغی گوشت کی دکان ہے ۔ پکی سڑک تک جانے کے لئے راستہ اسی مرغی والے یا پھر کسی جوان سے پوچھیں ۔ بزرگوں کی زبان شاید آپ کو سمجھ نہ آئے. انب شریف کو جاتی پکی سڑک پر پہنچنے کے لئے مقامی لوگوں سے رہنمائی لیں. GPS بالکل بھی نہ لگائیں. ذلیل GPS آپ کو انتہائی واہیات راستے پر ڈال دے گا. جہاں صرف اور صرف پتھر پڑے ہیں. سارا راستہ ہی گھومنے والا ہے. "انب سرکار" کے مزار سے تقریباََ ایک کلو میٹر ہی آپ کو یہ قلعہ سڑک پر ہی مل جائے گا. یہ قلعہ بالکل مختلف نوعیت کا ہے اور اچھا خاصہ پرانے معلوم ہوتا ہے۔ کسی دوست کو اس قلعہ بارے معلومات ہوں تو شئیر کریں.
امب_شریف_ٹیمپل
سننے میں شاید یہ نام بہت مزاحیہ لگے کیونکہ پنجابی میں امب ''آم'' کو کہا جاتا ہے لیکن امب شریف کا نام راجہ امبریک سے منسوب ہےجس کےنام پراس علاقےکانام پڑا ۔ یہ جگہ ضلع خوشاب کی قدیم ترین تاریخ کی امین ہے۔ امب شریف کے مندر ضلع خوشاب کی تحصیل قائد آباد میں واقع ہیں جہاں بزریعہ قائد آباد سکیسر روڈ اور پھر اوچھالی ۔گمندڑہ۔ مہوڑیاں والہ-امب شریف روڈ سے ہو کر پہنچا جا سکتا ہے۔ پہلے ان تک پہنچنے کا راستہ بہت کٹھن تھا اب آسان ہے کیونکہ اب روڈ بن گیا ہے ۔ یہ وہ منادر ہیں جو اب متروک ہوچکے ہیں۔ یہ مندر سلسلہ کوہ نمک کے مغربی کناروں پر واقع ہیں جو تقریبا ساتویں صدی عیسوی سے نویں صدی عیسوی کے وسطی زمانہ میں (تعمیر کی مصدقہ تاریخ کہیں نہیں ملی) ہندو شاہی ریاست نے تعمیر کیے جب یہ علاقہ ہندوؤں کا اہم مذہبی مرکز تھا۔ جہاں سےآج بھی ھزاروں سال پرانی آبادی کےنشان ملتےہیں آج بھی یہاں کےپرانےقلعےاورقدیم عمارتوں کےقدیم تہذیبی نشان دیکھےجاتےہیں اسکےاردگردقدیم تہذیب کے بہت سارےآثاربکھرےپڑےہیں""امب،پہاڑپرایک عظیم الشان قلعہ اور بڑی بڑی حویلیوں کےآثارموجودہیں،ان لمبی دیواروں کے آثار یہ ظاھرکرتےہیں کہ میدانی باشندوں کےحملےسےبچنےکیلئےیہ دفاعی فصیل کاکام دیتی تھی، اِنہیں مندروں کے طرز پر دوسرے ہندو منادر ٹلہ جوگیاں اور کٹاس میں بھی موجود ہیں۔اصل میں یہ ایک قلعہ تھا جس میں ایک محل اور دو مندر واقع تھے۔ محل اور قلعے کا کوئی نشان باقی نہیں ہے۔ امب کے مندروں میں سے اب صرف دو باقی ہیں جو تقریباً اپنی اصل ہیئت و ساخت میں موجود ہیں۔ بڑا مندر جو 15 تا 20 میٹر بلند ہے، ایک مربع نما پایہ ستون پر تعمیر کیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کابل شاہی عہد میں تعمیر کیے جانے والے تمام مندر مربع نما پایہ ستون پر تعمیر ہوئے تھے۔ اب اِس بڑے مندر کی تین منزلیں باقی رہ گئی ہیں جن تک رسائی کے لیے اندرونی جانب سیڑھیاں موجود ہیں۔ یہ مندر کشمیری مندروں کی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے جس کے باہر چاروں جانب خوبصورت کشمیری طرز کے پھول اور نقاشی اینٹ سے بنائی گئی ہے۔ داخلے کی محراب بھی نقاشی دار ہے جبکہ بالائی سطح پر مندر کا تکون نما گوشہ کشمیری مندروں سے مختلف ہے۔ امب مندر کی مشابہت کے دوسرے مندر کافرکوٹ میں موجود ہیں جن کا طرز تعمیر اور معماری انداز بالکل ایک جیسا ہی ہے۔ چھوٹا مندر بڑے مندر سے 75 میٹر مغرب کی جانب سلسلہ کوہ نمک کی ایک کھائی سے متصل واقع ہے۔ اِس کی بلندی 7 یا 8 میٹر ہے اور عمارت 2 منزلہ ہے۔ اِس مندر میں سیڑھیاں قدرے چھوٹی ہیں لیکن اِس کا زیادہ تر حصہ منہدم ہوچکا ہے۔ سلسلہ کوہ نمک کے اِس علاقہ میں مندروں کی تعمیر کا کام سب سے پہلے کشان سلطنت کے عہد میں شروع ہوا تھا۔اس قلعہ کےاردگردایک،کتبہ،بھی دریافت ھواتھاجوتین فٹ لمبااور اڑھائی فٹ چوڑاتھا،اسےایک پنڈت نےپڑھااوراس نتیجہ پرپہنچاکہ یہ کتبہ ظہور اسلام سےپانچ سوسال پہلےکاتھا یہ رائےحقیقت پرمبنی نہیں تھی اس قطبےکومحققین نےان قدیم شمسی سرمیوں سےمنسوب کیاھےجن سے،رگ وید،کے کئی اشعار،منسوب کئےجاتےہیں۔انیسویں صدی عیسوی میں انگریز برطانوی افسر سر الیگزینڈر کننگھم نے اِس کا دورہ کیا اور 1922ء سے 1924ء کی درمیانی مدت میں اِس کی بحالی کا کام مکمل کیا گیا جس کی نگرانی دیا رام ساہنی نے کی۔ مندر کے نوادرات مختلف زمانوں میں لوٹ لیے گئے ( اور آج بھی بے دردی سے لوٹے جا رہے ہیں ) بعد ازاں یہ تاریخی نوادرات عجائب گھر لاہور منتقل کردیے گئے۔ یہ منادر قانون مجریہ برائے تحفظ تاریخی عمارات و آثارِ قدیمہ 1975ء کے تحت محفوظ قرار دیے گئے ہیں۔ تاریخ سے لگاؤ رکھنے والی کسی بھی سیلانی روح کے لیئے یہ جگہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
(مندر کے بارے معلومات کاپیڈ ہیں).






    
    







    





No comments:

Post a Comment