تقسیم کے وقت چترال ان اولین ریاستوں میں سے تھی جس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا. البتہ داخلی طور پر یہ ایک خود مختار ریاست تھی. وادیِ چترال کے حکمران کو "مہتر" کہا جاتا تھا. 1919 میں جب مہتر شجاع المک دہلی گئے تو جامع مسجد سے بے انتہاء متاثر ہوئے اور واپس پہنچ کر اسی سال شاہی مسجد چترال کی بنیاد رکھی. مسجد 1924 میں مکمل ہوئی. مسجد کا کل رقبہ 6 کنال 2 مرلہ ہے. مسجد پر اس وقت کے تقریباً سات لاکھ روپے خرچ ہوئے. مسجد کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں سمینٹ یا سریا کا استعمال نہیں کیا گیا. مسجد کو لال پتھر سے ہی تعمیر کیا گیا تھا مگر پتہ نہیں موجودہ مہتر صاحب کو لال رنگ سے کیا الرجی ہے. اب تقریباً پوری مسجد کو سفید کیا جا رہا ہے. بس ایک مینار لال رہ گیا ہے. عنقریب وہ بھی سفید ہو جائے گا. حالانکہ یہ مسجد اپنے اصل رنگ میں زیادہ خوب صورت لگتی تھی. مسجد عنقریب مکمل طور پر دودھ میں نہانے جا رہی ہے. نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ مہتر صاحب کی بیگم کو سفید رنگ شدید پسند ہو گا. شاہ جہاں نے سفید تاج محل بنایا تھا۔ یہاں بھی بیگم کی طرف سے کچھ ایسی ہی فرمائش مہتر صاحب کے سامنے آئی ہو گی. مہتر صاحب نے سوچا ہو گا کہ کچھ نیا سفید بنا کر کیا کرنا ہے۔ حالات پہلے ہی ذرا تنگ ہیں، اسی لال مسجد کو سفید کردو. اب بیگم کی بات تو فرعون بھی نہیں ٹال سکا تھا. میں، آپ یا مہتر صاحب کس کھیت کی مولی ہیں
No comments:
Post a Comment