سن 1739 میں شہزادی زیب النساء نے پشاور کا دورہ کیا تو پشاور کو ایک انتہائی اہم تجارتی شہر ہونے کے باوجود سہولیات سے خالی پایا۔ شہزادی نے فوراً ایک بڑے سرائے کی تعمیر کا حکم دیا جہاں نا صرف کابل اور روس سے آنے والے تجارتی قافلے اپنا پڑاؤ ڈال سکیں بلکہ دہلی ، لاہور سے آنے والے بھی اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔ سرائے صرف ایک سادہ سرائے نہیں تھا بلکہ اس وقت کی تمام ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں مختلف دکانیں بھی بنائی گئیں۔ ان میں سے بہت سی دکانیں آج مدہم ہو چکی جبکہ 75 ابھی بھی ٹھیک حالت میں موجود ہیں ۔ آج یہ سرائے گور گٹھڑی ی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس کا بیشتر حصہ پشاور کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے۔ گور گٹھڑی کے دو دروازے ہیں ۔ ایک مشرقی دروازہ جبکہ دوسرا اس کے مقابل مغربی دروازہ ہے۔ مشرقی دروازے کا رخ چوں کہ دہلی کی جانب ہے اس لیے اسے دہلی دروازہ کہا جاتا تھا۔ دہلی لاہور سے آنے والے قافلے اس دروازے سے سرائے میں داخل ہوتے تھے۔ مغربی دروازے کا رخ کابل کی جانب ہے اس لیے اسے کابلی دروازہ کہا جاتا ہے۔ کابل اور روس سے آنے والے تجارتی قافلے اس دروازے کو استعمال کرتے ہوئے سرائے میں داخل ہوتے تھے۔ یہ سرائے جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ایک فرانسیسی جنرل کی رہائش گاہ بنا تو گور کھتری کہلایا کیوں کہ اس نے یہاں پھانسی گھاٹ بنوایا۔ کچھ حصے کو جیل کی شکل دے دی۔ انگریز نے 1912 میں پشاور شہر میں میونسپل کارپوریشن کا محکمہ اسی عمارت میں قائم کیا تھا۔ آج بھی یہاں Merry Weather کمپنی کی بنائی ہوئی دو فائر بریگیڈ کی گاڑیاں موجود ہیں جنھیں 1919 اور 1921 میں بنایا گیا تھا۔ آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ نے یہاں اب ایک میوزیم بھی بنا رکھا ہے جو 2006 سے کام کر رہا ہے۔ اس کے پاس کھدائی کے نتیجے میں گندھارا تہذیب کے کچھ آثار بھی دریافت ہوئے ہیں ۔ کھدائی کے نتیجے میں ملنے والی مختلف اشیاء کو اسی میوزیم میں رکھا گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment