Sunday, January 21, 2024

Shakhan Wali Masjid Bhera

بھیرہ شہر میں ایک شیخ حسن گزرے ہیں جو نا صرف مال و دولت کے اعتبار سے رئیس تھے بلکہ دل کے بھی رئیس تھے. بھیرہ شہر میں ایک مشہور محلہ شیخاں والا محلہ بھی ہے جہاں ایک بلند ٹیلہ تھا. شیخ صاحب کے ہاں چونکہ مال و دولت کی فراوانی تھی لہٰذا انھوں نے اس ٹیلہ پر ایک مسجد بنانے کا فیصلہ کیا جو آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور بھیرہ کے شیخاں والہ محلہ میں شیخاں والی مسجد کے نام سے جانی جاتی تھی. شیخاں والی یہ مسجد عام آبادی سے ذرا بلندی پر ہے ۔ ایک منفرد ساخت دینے کے لئے اس کے چاروں اطراف پر قلعہ کی مانند مینار بھی بنائے گئے ہیں. شیخ حسن صاحب نے نا صرف یہ مسجد بنوائی بلکہ اس میں طلباء کی رہائش اور باقاعدہ تعلیم کا بھی بندوبست کیا. دور دراز سے آنے والے طلباء کی رہائش کا بندوبست مسجد کے ساتھ ہی ایک بڑی حویلی میں کیا گیا جسے سرائے کہا جاتا تھا. بھیرہ میں بچوں کو دینی تعلیم دینے کے لئے بگویہ خاندان سے بڑھ کر اور کوئی نہ تھا جو آٹھویں صدی عیسوی میں سندھ سے ہجرت کر کے پنجاب آیا تھا. شیخاں والی مسجد میں درس و تدریس کا سلسلہ احمد الدین بگویہ نے شروع کیا. محی الدین بگویہ کے دو بیٹوں عبدالعزیز بگویہ اور غلام محمد بگویہ نے بھی اپنی زندگی اسلام کے لئے وقف کی. رنجیت سنگھ نے بادشاہی مسجد لاہور اور شیر شاہ سوری مسجد دونوں مساجد کو گھوڑوں کے اصبل، توپ خانے اور دوسرے بہت سے محکموں میں تبدیل کیا۔ یقیناََ اور بھی مساجد کے ساتھ ایسا کیا گیا ہو گا۔ دونوں مساجد کو حاصل کرنے اور ان کی رونقیں پھر سے بحال کرنے میں بگویہ خاندان نے اہم کردار ادا کیا. محی الدین بگویہ کے بیٹے عبدالعزیز بگویہ نے شیخاں والی مسجد سے تدریس کا سلسلہ جامع مسجد شیر شاہ سوری میں منتقل کیا جبکہ محی الدین بگویہ کے دوسرے بیٹے غلام محمد بگویہ شاہی مسجد لاہور تشریف لے گئے اور مسجد کے معاملات سنھبالے. انھی کے نسل سے آگے ظہور احمد بگویہ بھی ہوئے جنھوں نے آل انڈیا حزب انصار کی بنیاد رکھی.
معلومات اور پرانی تصاویر کی فراہمی کے لئے انتظار احمد اسد صاحب کا شکریہ

No comments:

Post a Comment