بابا گرو نانک نے جہاں جگت سنگھ کو فتح بھنڈر، اپنے منہ بولے بھائی کو ایمن آباد بھیجا کہ وہ لوگوں کو سکھ مذہب کی تعلیم دیں، وہی انھوں نے بابا گرو میاں صاحب کو کوٹ رام داس تحصیل ڈسکہ بھیجا. بابا گرو میاں نے یہاں گوردوارہ اور "کلی سمادھی (تالاب)" بنوائی جہاں مرنے والوں سکھوں کی آخری رسومات ادا کی جاتی تھیں ۔ 14 سال سے کم عمر اگر کوئی سکھ مر جاتا تو اسے دفنا دیا جاتا تھا جبکہ بڑے بزرگوں کو پہلے جلایا جاتا تھا کہ ان کے پاپ بھی ساتھ جل جائیں اور اس کے بعد ان کی چتا کو یا تو اسی تالاب میں بہا دیا جاتا تھا یا پھر زمین میں دفنا دیا جاتا تھا۔ بابا گرو میاں صاحب جب دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی سمادھی بھی پاس ہی بنا دی گئی ۔ وقت کا ظالم گھوڑا بے لگام دوڑا، سن 47 آیا، لکیر کھینچی گئی، سکھوں نے اپنے آپ کو "سکھ" ثابت کیا اور بنا سوچے سمجھے منہ اٹھا کر چل پڑے انڈیا۔ بہت سے مسلمان یہ کہہ کر بھارت سے پاکستان نہ آئے کہ وہ اپنے بزرگوں کی قبروں کو کیسے چھوڑ کر پاکستان جائیں مگر میں قربان جاؤ اپنے سکھ بھائیوں پر جو اپنے گروؤں کی سمادھیاں چھوڑ کر بھارت چلے گئے ۔ جب سکھوں نے اپنے بزرگوں کا خیال نہ کیا تو ہم مسلمان کیوں کرتے؟ ہم نے بھی بابا گرو میاں کی سمادھی کو زبردستی مسلمان کیا اور اسے ایک مزار کا درجہ دے کر ولایت کی بلندیوں تک پہنچا دیا ۔ اب مسلمان بابا گرو میاں کے مزار پر دیے جلاتے ہیں، پھول نچھاور کرتے ہیں اور ان کے حضور اپنی منتیں مرادیں رکھتے ہیں
No comments:
Post a Comment