Tuesday, February 20, 2024

Jamia Masjid Sakeena ul Sughra Jatoi MuzaffarGarh

 

Uploading: 1115136 of 1847524 bytes uploaded.
اگر آپ جنوبی پنجاب کی سیاحت کو نکلیں ہیں تو جتوئی شہر کے ایک چھوٹے سے قصبے کوٹلہ رحم علی میں بنی سکینہ الصغریٰ مسجد دیکھے بنا گھر آنا یقیناً زیادتی ہو گی۔ مسجد کی بنیاد 31 جنوری 2006 میں ڈاکٹر اسماعیل احمد حسین بخاری نے اپنے چھوٹے بھائی سید شکیل احمد حسین کے ساتھ رکھی تھی۔ مسجد کا نام دونوں بھائیوں کی والدہ اور پھوپی کے ناموں کو جوڑ کر رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر بخاری جو 1975 سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک عرصے سے خواہش تھی کہ وہ اپنے آبائی علاقے میں ایک عظیم الشان مسجد قائم کریں۔ مسجد سکینہ الصغریٰ جسے نہ صرف ترک انجنیئر نے تعمیر کروایا بلکہ اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والا سامان اور کاری گر بھی ترکی سے ہی آئے۔ مسجد کو آیا صوفیہ کی طرز پر ہی تعمیر کیا گیا ہے۔ آپ جتوئی سے ڈیرہ غازی خان کو جاتی گاڑی میں اگر سوار ہوں تو آپ کو کوٹلہ رحم علی شاہ سٹاپ پر ہی اترنا پڑے گا۔ یہیں سے آپ کو مسجد کے بلند و بالا مینار بھی نظر آنا شروع ہو جائیں گے جن کی بلندی تقریباً 55 فٹ ہے۔ کوٹلہ سٹاپ سے تقریباً پانچ منٹ پیدل چلنے کے بعد آپ مسجد سکینہ الصغریٰ میں داخل ہو جائیں گے۔ مسجد کا رقبہ 52 ایکڑ ہے جس کے آغاز پر ہی دو بڑے بڑے لان ہیں۔ جہاں پودوں کی تراش خراش ایسے کی گئی ہے کہ بڑا سا لفظ اللہ اور اسمِ محمد وجود میں آ چکا ہے۔ مسجد تین منزلہ ہے۔ نماز نیچے والی منزل میں ہوتی ہے۔ اوپر والی دونوں منازل عام طور پر بند ہوتی ہیں جنھیں صرف سیاحوں کے لئے کھولا جاتا ہے۔ زیریں منزل کے علاؤہ آپ بالائی منزل سے بھی سیڑھیوں کے ذریعے مسجد میں داخل ہو سکتے ہیں۔ مرکزی ہال کے درمیان میں ایک بڑا سا جھومر لگا ہے جو واقعی میں مسجد کے ماتھے کا جھومر ہے۔ مسجد کے اندر آپ کو جنوبی پنجاب کا روایتی نیلا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ آپ اگر زیریں منزل سے مسجد میں داخل ہوں تو جھومر کے پاس جا کر لیٹ جائیں۔ آپ کی نگاہ سیدھا اوپر والے گنبد پر جائے گی۔ پہلی منزل کے ہال پر بالکل ویسے ہی چاروں خلفائے راشدین کے ناموں کے علاؤہ حضرت حسن اور حسین کے نام کی خطاطی کی گئی ہے جس طرح ترکی کی آیا صوفیہ میں ۔ مسجد کا گنبد بھی آیا صوفیہ جیسا ہے اور مینار بھی۔ مسجد پر پہلی نظر ڈالتے ہی آپ پہنچان جاتے ہیں کہ اسے آیا صوفیہ کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ مسجد کے ساتھ ہی ایک سکول بھی بنایا گیا ہے جہاں مستحق بچوں کو ہاسٹل کی سہولت بھی دی گئی ہے ۔ بچے سکول میں دینی تعلیم کے علاؤہ دنیوی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔ مسجد کو ڈیرھ سال کے قلیل عرصے میں تعمیر کیا گیا ہے۔
Uploading: 1115136 of 2559864 bytes uploaded.

Uploading: 1115136 of 2263103 bytes uploaded.

Uploading: 1858560 of 2727025 bytes uploaded.

Uploading: 2230272 of 2482970 bytes uploaded.

Uploading: 2230272 of 2278504 bytes uploaded.

















Tomb of Bibi Jawindi

 


جلال الدین بخاری سرخ پوش کے مزار کے ساتھ ہی ان کی پوتی بی بی جیوندی کا مقبرہ ہے۔ بی بی جیوندی کا مقبرہ خراسان کے حکمران محمد دلشاد نے پندرہویں صدی عیسوی کے آخر میں تعمیر کروایا تھا۔ یہ اوچ شریف کا ایک نمایا مقبرہ ہے۔ مقبرہ ہشت پہلو پر پکی اینٹوں سے بنایا گیا ہے جس کے ہر کونے پر برج ہیں۔ محراب والی کھڑکیوں والے چھوٹے ہشت پہلو پر ایک گنبد اوپر اٹھایا گیا تھا۔ بیرونی حصے کو سفید اور نیلے رنگ کی کاشی ٹائیلون سے مزین کیا گیا ہے ۔ گو کہ مقبرہ جزوئ طور پر منہدم ہو چکا ہے لیکن اس کا ہم آہنگ ڈیزائن اس کی اصل ترتیب کو تصور کرنا آسان بنایا ہے۔ مقبرے کا ڈیزائن ملتان میں شاہ رکن عالم کے مزار سے کافی ملتا جلتا ہے جو 1320 اور 1324 عیسوی کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا۔ 1817 عیسوی میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے مقبرے کی ساخت کو بدقسمتی سے کافی نقصان پہنچا تھا۔ یہ مقبرہ یونیسکو کی عالمی ثقافتی فہرست میں شامل ہے












'Nand Niwas' A pre partition house in Greenwood Street, Sialkot

 







Shiva temples with Sudhansu Bhushan Bose Memorial Universty Of Dhaka Bangladesh

 







Shri Sewa Samiti Ashram' in Multan

 


Hindou Ashram Multan

 




Clock Tower Peshawar

 

Ghanta Ghar #Peshawar(Cunningham Clock Tower) made by Lala Balmukand Daas in undivided India in 1900.
It was built in 1900 "in Commemoration of the Diamond jubilee of the Queen Empress" and was made by Lala Balmukund Daas (Bankers of Peshawar city). The tower was named after Sir George Cunningham, former British governor and political agent in the Frontier province .




Kafir Kot Fort Dera Ismail Khan KPK

 

قلعہ کافر کوٹ
ڈیرہ اسماعیل خان سے میانوالی کی جانب دریائے سندھ کے دائیں کنارے ایک سڑک شمال کی سمت جاتی ھے- اس سڑک پر چند میل آگے جائیں تو بائیں جانب ایک پہاڑی کی چوٹٰی پر ایک قلعے کے آثار نظر آتے ھیں- یہ قلعہ کافر کوٹ ھے- یہ قلعہ بلوٹ کے بانی راجہ بل کے بھائی راجہ ٹل نے بنوایا تھا- کہتے ھیں ٹل اتنا طاقت ور تھا کہ اس کا نام طاقت کی علامت بن گیا- راجہ ٹل تو ھزار سال پہلے گذر گیا، لیکن اس کا نام آج بھی ھماری زبان کا ایک معروف محاورہ ھے- یہ جو ھم کہتے ھیں “لالا، پورا ٹل لائیم “ یہاں لفظ “ٹل“ کے معنی ھیں زور یا طاقت- اور یہ لفظ دراصل راجہ ٹل کانام تھا-
سنا ھے راجہ بل اور ٹل کا ایک تیسرا بھائی راجہ “اکل“ بھی تھا- لکی مروت / ٹانک کے علاقے میں اس نے بھی ایک قلعہ بنوایا تھا- یہ قلعے افغان قبائلیوں کے حملوں کے خلاف مدافعت کے لیے بنائے گئے تھے-
کیا عجیب لوگ ھیں یہ قبائلی بھی- ایک ھزار سال پہلے کشمیری ھندوراجاؤں کے لیے درد سر بنے رھے، دوسوسال انگریزوں کے ناک میں دم کیے رکھا، پچھلے دس پندرہ سال سے امریکہ کو “وخت“ ڈال رکھاھے،-
قلعہ کافر کوٹ ایک پراسرار ھیبت ناک سی جگہ ھے- اب تو سڑک کی وجہ سے اس کی ویرانی پہلی سی نہیں رھی- جب ھم پہلی بار وھاں گئے تو اس وقت یہ علاقہ بالکل سنسان تھا- اس دورے کے منتظم پروفیسر محمد سلیم احسن تھے- ھمارے چند اور پروفیسر دوستوں کے علاوہ کچھ سٹوڈنٹ بھی ھمارے ھمراہ تھے--
1989 میں میں نے اس قلعے کے بارے میں ایک مفصل مضمون بھی لکھا تھا، جو انگریزی کے اخبار پاکستان ٹائیمز میں شائع ھؤا تھا- اس میں میں نے یہ پکچرز بھی شامل کی تھیں جو اس پوسٹ میں آپ دیکھ رھے ھیں -- اس مضمون کی ایک کاپی لاھور میوزیم (عجائب گھر) کے ریکارڈ میں بھی شامل ھے-
یہ قلعہ بلوٹ کے قلعے سے کچھ بہتر حالت میں ھے- شمال اور جنوب کی فصیل (دیوار) کا کچھ حصہ اور دو بڑے گیٹ بھی موجود ھیں ، احاطہ خاصا وسیع ھے ٠ فوجیوں کی بیرکوں (رھائش گاہ) کے کھنڈرات کے علاوہ کچھ مند ر بھی ھیں- جنوب مشرقی کونے پر ایک دومنزلہ حفاظتی چوکی کے کچھ آثار اوپر والی پکچر میں آپ بھی دیکھ سکتے ھیں-------
قلعے کے شمال مغربی کونے پر ایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کی قبر بھی ھے-
پروفیسر منورعلی ملک