کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ آخر دو قومی نظریہ تھا کیا۔ یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہے کوئی اٹھے اور کہہ دے کہ بس اب میں نے یہاں نہیں رہنا۔ وہ اٹھے, اپنی عبادت گاہوں کو چھوڑے, اپنے بڑوں کی نشانیاں, اپنا گھر بار, مال مویشی, کاروبار سب چھوڑ دے اور ایک ایسی جگہ کی جانب ہجرت کر جائے جس کے بارے وہ کچھ نہیں جانتا کہ آیا کہ اسے وہاں چھت بھی میسر ہو گی بھی یا نہیں ۔ اسے بیوی بچے, بوڑھے ماں باپ کے لئے دو وقت کی روٹی مل پائے گی بھی یا نہیں. سب سے بڑی بات کہ وہ سفر کی صعوبتوں کو کس طرح برداشت کریں گے.
یہ نظریہ بھلا ہی میری سمجھ میں نہ آئے تو مگر یہ ہوا ہے. جب میں اپنی آنکھوں سے اجڑے ہوئے مندر, گوردوارے دیکھتا ہوں تو یقین کر لیتا ہوں کہ یہ سب ہوا ہے. جب میں بڑی بڑی حویلیاں, خوب نقش و نگار والے دروازے, لکڑی کے خوبصورت کام سے آراستہ دیواروں کو چند بے قدروں کے ہاتھوں میں دیکھتا ہوں تو یہ یقین کر لیتا ہوں کہ یہ سب ہوا ہے اور مذہب کے نام پر ہی ہوا ہے. مذہب کے علاوہ اور کسی میں اتنا دَم نہیں کہ وہ آپ کو اپنے علاقے, اپنی جائیدادوں اور اپنے پیاروں سے محروم کر سکے۔ یہ مذہب ہی تو تھا جس کے کہنے پر دونوں اطراف کے لوگوں نے اپنا سب کچھ چھوڑا اور ایک انجان جگہ کی جانب چل پڑے کہ دونوں کو یہ یقین تھا کہ دوسرے ان کو اپنی عبادات نہیں کرنے دینے گئے۔ کھیل تو سارا عبادت کا ہی تھا۔ وہاں کاروبار تو سب کے اپنی اپنی جگہ پر چل ہی رہے تھے. اگر ایک جانب لوگوں کو خدشات تھے کہ انھیں آزادی سے اذان کہنے کی اجازت نہیں ہو گی تو دوسری جانب تشویش یہ بھی تھی کہ مندوں کی گھنٹیاں اتنی آزادی سے کیونکر بج سکیں گی.
اس لئے بہت ساروں نے اپنا سب کچھ چھوڑا. راستے میں کئی لوگوں نے اپنے بیوی بچوں, بوڑھے ماں باپ کو بھی قربان کر دیا۔ کئی بھائی اپنی بہنوں کو بچانے کے لئے کٹ گئے تو کئی بہنوں نے اپنے بھائیوں کی عزت رکھنے کے لئے اپنی جان کی قربانی دے دی.
اتنا سب کچھ قربان کر دیا گیا تب جا کر دونوں اطراف کے لوگوں کو فقط اتنی آزادی مل سکی کہ ایک آزادی کے ساتھ گلا پھاڑ کر اذان دے سکتا ہے اور دوسرا اپنی پوری قوت کے ساتھ شیوا کے سامنے گھنٹیاں بجا سکتا ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح سویرے چکوال کلرکہار روڈ پر سے گزرتے ہوئے ان پر نظر پڑی تو بائیک روک کر ان کی جانب چل پڑا. یقیناً ان کے اصل مکین اب یہاں نہیں ہیں ورنہ آج یہ بھی قدرے اچھی حالت میں ہوتے۔
No comments:
Post a Comment