1784 میں بننے والا یہ شاہی قلعہ چترال کے مہتر کی رہائش گاہ ہے. قلعہ کے مختلف حصے مختلف ادوار میں تعمیر ہوتے رہے ہیں. شاہی قلعہ چترال ہر قلعہ کی طرح ایک دریا کے کنارے یعنی دریائے چترال کے کنارے بنایا گیا ہے. دریائے چترال کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ اس کا قدرتی بہاؤ افغانستان کی طرف ہے. دریائے چترال دریائے کابل میں جا کر گرتا ہے اور دریائے کابل کا قدرتی بہاؤ پاکستان کی جانب ہونے کی وجہ سے یہ دوبارہ پاکستان میں داخل ہو جاتا ہے. یاد رہے کہ پاکستان میں اٹک کے مقام پر دریائے کابل دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے. قلعہ کے اطراف میں لگے چنار اور شاہ بلوط کے درخت اس کی خوب صورتی میں بے پناہ اضافہ کرتے ہیں ۔ قلعہ کے باہر 1948 میں سکردو میں ہونے والی جنگ میں استعمال شدہ توپیں پڑی ہیں۔ اگر آپ کے ساتھ فیمیلی ہے تو آپ کو قلعہ اندر سے دیکھنے کی اجازت مل سکتی ہے ورنہ آپ بھی بس میری طرح قلعہ باہر سے دیکھنے پر اکتفا کریں. اندر کا drawing hall بے پناہ خوب صورت ہے جہاں اب تک کے ہونے والے تمام مہتر صاحبان کی تصاویر لگی ہیں. قلعہ میں زیرِ زمین قید خانے اور مہمان خانے بنے ہوئے ہیں جبکہ دریا تک جانے کے راستے بھی موجود ہیں.
No comments:
Post a Comment