شمس الدین ولی سبزواری 15 شعبان 560 ہجری میں سبزوار میں پیدا ہوئے اور اسی مناسبت سے سبزواری کہلائے۔ والد کا انتقال 644 ہجری میں ہوا۔ جب سبزوار منگولوں کے حملوں کی زد میں آیا تو آپ نے اپنے ایک و عیال کے ساتھ سبزوار چھوڑا اور برصغیر کے شہر ملتان کو اپنا مسکن بنایا۔ آپ کا انتقال 675 ہجری میں ہوا۔ موجودہ مقبرے کی عمارت کو 1102 ہجری میں بنایا گیا۔
یہاں ایک بات کی وضاحت انتہائی ضروری ہے۔ شمس الدین چونکہ سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، اس لئے انھیں شاہ شمس بھی کہا جانے لگا۔ نہ جانے کب لوگوں نے ان کے نام کے ساتھ تبریز لگانا شروع کر دیا اور اس طرح یہ شمس الدین سبزواری سے شاہ شمس تبریز بن گئے۔ شاہ شمس تبریز کا نام سن کر فوری طور پر مولانا رومی والے شاہ شمس کا نام ہی ذہن میں آتا ہے جو تبریز شہر میں پیدا ہوئے تھے جبکہ ملتان والے شاہ شمس سبزوار شہر میں پیدا ہوئے تھے۔ حیرت اور عجیب بات یہ ہے کہ شمس الدین سبزواری کے مزار کے والی انھیں مولانا رومی والا شاہ شمس ہی بتاتے ہیں۔ اس مزار کے والیوں کے مطابق یہی وہ شاہ شمس ہیں جنھوں نے مولانا رومی کو درست راستہ دکھایا تھا۔ یہی وہ شاہ شمس ہیں جنھوں نے مولانا رومی کی کتابوں کو پہلے دریا میں ڈبو دیا اور پھر باہر ایسے نکالا جیسے ان کتابوں کو پانی نے کبھی چھوا ہی نہ ہو۔ یہاں تک کہ مزار کے احاطے میں یہی ساری باتیں ایک لوہے کے بورڈ پر لکھی ہوئی ہیں اور انھیں وہی مولانا رومی والا ہی شاہ شمس کہا گیا ہے۔ یہاں ایک دلچسپ بات بھی ہے۔ مزار میں دیوار پر جو بورڈ نصب ہے جس میں شاہ شمس کو مولانا رومی والا شاہ شمس ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، وہاں شاہ شمس کا نام بار بار صرف شاہ شمس ہی لکھا گیا ہے۔ کہیں بھی ان کا پورا نام شمس تبریز نہیں لکھا گیا حالانکہ وہ اپنے پورے نام کے ساتھ ہی مشہور ہیں یعنی شمس تبریز یا شمس تبریزی مگر واقعہ وہی لکھا ہوا ہے جو مولانا رومی اور شمس تبریز کا کتابوں کا مشہور ہے۔
See translation
All reactions:
3333
No comments:
Post a Comment