Thursday, January 11, 2024

ROHTAS FORT JHELUM

 قلعہ روہتاس

شیر شاہ سوری نے اس قلعے کی تعمیر کا حکم 948ھ بمطابق 1541 میں دیا جو کہ 1548 میں سات سال کے مختصر وقت میں مکمل ہوا۔ شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ گکھڑوں کی سرکوبی کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ دوسرے قلعوں سے ہٹ کر قلعہ روہتاس کی تعمیر چھوٹی اینٹ کی بجائے دیو ہیکل پتھروں سے کی گئی ہے۔ ان بڑے بڑے پتھروں کو بلندیوں پر نصب دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس قلعے کی تعمیر میں عام مزدروں کے علاوہ بے شمار بزرگانِ دین نے بھی اپنی جسمانی اور روحانی قوتوں سمیت حصہ لیا۔ ان روایات کو اس امر سے تقویت ملتی ہے کہ قلعے کے ہر دروازے کے ساتھ کسی نہ کسی بزرگ کا مقبرہ موجود ہے۔
ایک روایت کے مطابق ٹوڈرمل نے اس قلعے کی تعمیر شروع ہونے والے دن مزدروں کو فی سلیب (پتھر) ایک سرخ اشرفی بطور معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ گو قلعہ کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات کا درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تاہم ایک روایت کے مطابق اس پر 34 لاکھ 25 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ واقعات جہانگیری کے مطابق یہ اخراجات ایک پتھر پر کندہ کیے گئے تھے، جو ایک زمانے میں قلعے کی کسی دروازے پر نصب تھا۔ قلعے کی تعمیر میں 3 لاکھ مزدوروں نے بیک وقت حصہ لیا اور یہ 4 سال، 7 ماہ اور 21 دن میں مکمل ہوا۔
قلعے کے بارہ دروازے ہیں، جن کی تعمیر جنگی حکمت علمی کو مدنظر رکھ کر کی گئی تھی۔ یہ دروازے فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ ان دروازوں میں ہزار خوانی دروازہ، خواص خوانی دروازہ، موری دروازہ، شاہ چانن والی دروازہ، طلاقی دروازہ، شیشی دروازہ، لنگرخوانی دروازہ، کابلی (یا بادشاہی) دروازہ، گٹیالی دروازہ، سوہل (یا سہیل) دروازہ، پیپل والا دروازہ اور گڑھے والا دروازہ شامل ہیں۔ قلعے کے مختلف حصوں میں اس کے دروازوں کو بے حد اہمیت حاصل تھی اور ہر دروازے کا اپنا مقصد تھا اور اس کی خاص وجہ تسمیہ بھی تھی۔ ہزار خوانی صدر دروازہ تھا۔ طلاقی دروازے سے شیر شاہ کے دور میں ہاتھی داخل ہوتے تھے۔ طلاقی دروازے کو منحوس دروازہ سمجھا جاتا تھا۔ شیشی دروازے کو شیشوں اور چمکتی ٹائلوں (چمکتے چوکوں) سے تیار کیا گیا تھا۔ لنگرخوانی لنگر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ کابلی دروازے کا رخ چونکہ کابل کی طرف تھا اس لیے اس کو کابلی دروازہ کہا جاتا تھا۔ سوہل دروازہ زحل کی وجہ سے سوہل کہلایا۔ جبکہ اس کو سہیل دروازہ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ حضرت سہیل غازی کا مزار یہیں واقع ہے۔ گٹیالی دروازے کا رخ چونکہ گٹیال پتن کی طرف تھا اس لیے اسے یہ نام دیا گیا۔
قلعہ روہتاس کا سب سے قابلِ دید، عالیشان اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے۔ اس پر 68 برج، 184 برجیاں، 2377کنگرے اور 8556 سیڑھیاں ہیں (اندازاً)، جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ اس کے برج صرف فصیل کی خوب صورتی ہی میں اضافہ نہیں کرتے بلکہ یہ قلعے کے مضبوط ترین دفاعی حصار میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فصیل کی چوڑائی سب سے زیادہ ہے۔
اس قلعے کی دلکشی اور فن تعمیر کی مہارت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے 1997 میں تاریخی عالمی ورثہ میں شامل کر لیا گیا۔
عمران احسان ۔۔۔۔



























No comments:

Post a Comment