کہتے ہیں کہ 70ء میں راجہ سلوان نے پنجاب کے ایک شہر پر قبضہ کر لیا اور پرانے شہر اور قلعے کے کھنڈرات پر ایک نیا شہر اور قلعہ تعمیر کروایا اور اپنے نام کی نسبت سے اس کا نام "سیالکوٹ " رکھا۔ راجہ سلوان کی رانی اچھراں ( یاد رہے کہ لاہور کا اچھرہ بھی انھی کے نام پر ہے) کے ہاں منتوں، مرادوں کے بعد "پورن بھگت" پیدا ہوا جسے جوگیوں کے حکم پر پیدائش سے لیکر 12 سال کی عمر تک خاندان (بشمول راجہ اور رانی) سے دور رکھا گیا۔ انھی 12 سالوں کے دوران راجہ نے ایک لڑکی لوناں سے شادی کر لی مگر اس کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔ بارہ سال بعد جبکہ پورن ایک خوبصورت مرد بن چکا تھا، اپنے باپ کے محل میں واپس آیا تو رانی لوناں کا دل اس پر خراب ہوا مگر پورن وہاں سے بھاگ نکلا۔ رانی لوناں کو سخت طیش آیا۔ اس نے الٹا راجہ سے پورن کی شکایت کر دی۔ راجہ سلوان، جو لوناں پر بری طرح فدا تھا، نے پورن کے ہاتھ قلم کر کے اسےایک اندھے کنواں میں ڈالنے کا حکم سنا دیا۔
جب راجہ سلوان نے لوناں کی باتوں میں آ کر پورن بھگت کے ہاتھ کٹوا کر اسے اندھے کنواں میں پھینکا دیا تو کچھ دنوں بعد جوگیوں کے روحانی پیشوا گرو گورتھ ناتھ کا وہاں سے گزر ہوا۔ انھوں نے پورن کو کنواں سے باہر نکالا، اپنی کرامت سے اسے ہاتھ واپس لوٹائے اور اپنے ساتھ ٹیلہ جوگیاں لے گئے جہاں سخت امتخانات کے بعد انھیں جوگ دیا مگر تلقین کی کہ وہ اپنے وطن سیالکوٹ واپس جائیں. پورن بھگت جو اب جوگی بن چکا تھا، واپس اپنے وطن آیا۔ شہر میں ہر طرف اسی کا چرچا تھا۔ راجہ سلوان لوناں کے ساتھ پورن جوگی کے سامنے پیش ہوا جہاں لوناں نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا ۔
کہتے ہیں کہ پورن بھگت جوگی نے اسے اپنی کرامات اے حاملہ کیا مگر واپس کبھی اپنے محل نہیں گیا۔ آج بھی بے اولاد جوڑے کنواں پر حاضر ہوتے ہیں ۔ لڑکیاں اس کنواں کے پانی سے نہاتی ہیں مگر جو کچھ پہلے پہنا ہوتا ہے ( یہاں تک کے جوتے بھی) اسے جلا دیا جاتا ہے اور لڑکی نئے کپڑے پہنتی ہے ۔ اس کام کے لئے غسل خانے کنواں کے پاس ہی بنائے گئے ہیں. ایک خاندان مدتوں سے وہی آباد ہے اور اس جگہ کو اپنے آباء کا ورثہ قرار دیتا ہے.
تو حضرت یہ ہے سیالکوٹ چھاونی سے تقریباً دو میل دور شمال کی طرف کا وہ کنواں جس میں پورن بھگت کو پھینکا گیا تھا۔
کنواں سے ملحقہ مندر پر پاکستان بننے سے پہلے تک ہر نئے چاند کی پہلی اتوار کو میلہ لگتا تھا مگر سن 47ء کے بعد جب ٹیلہ جوگیاں اجڑا تو یہ مندر بھی اپنی اصلی شناخت کھو بیٹھا اور بس روایتی مندر بن کر رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
پرانی تحریر ، نئے لونڈے۔ 😻
No comments:
Post a Comment