1938 میں رئیس غازی محمد صاحب نے بھونگ مسجد تعمیر کروائی
مسجد کیلئے سنگ سفید کی پوری چٹان خریدی گئی تھی اور جگہ جگہ اسی پتھر کا استعمال ہوا ہے اس پتھر کی خاصیت یہ ہے کہ اگر ایک کنارے پہ ٹارچ جلائی جائے تو روشنی دوسرے کنارے سے کراس کرتی نظر آتی ہے پھر اس دور کی سب سے عمدہ لکڑی کا انتخاب کیا گیا جو کہ آج تک انتہائی اچھی حالت میں ہے
مسجد میں خط ثلث خط نستعلیق خط کوفی کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی خط میں لکھائی کی گئی ہے جو کہ مسجد کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث ہے
مسجد میں خالص سونے کا کام کیا گیا ہے اور منوں کے حساب سے مسجد میں سونا لگایا گیا ہے
کسی وجہ سے رئیس غازی محمد کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جب مسجد کی تعمیر مکمل ہو جائے گی تو ان کا انتقال ہو جائے گا اس وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی میں مسجد کی تعمیر کا کام رکنے نہیں دیا لیکن موت تو برحق ہے کل نفس ذائقہ الموت رئیس غازی محمد صاحب کے انتقال کے بعد ان کے صاحب زادے رئیس شبیر صاحب نے مسجد کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا اور پھر اب غازی صاحب کے پوتے رئیس جہانگیر صاحب اس مسجد کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں رئیس غازی صاحب نے مسجد کا باقاعدہ کوئی نقشہ نہیں بنوایا تھ
No comments:
Post a Comment