Punjnad Virsa Khooj
Welcome to the Rich Tapestry of India-Pakistan Heritage! Embark on a captivating journey through the shared history, vibrant cultures, and profound heritage of India and Pakistan. Our website serves as a digital repository, a celebration of the diverse traditions, and a testament to the enduring bonds that tie these two nations. Our Key areas are 1-Discover Our Shared Legacy 2-Cultural Kaleidoscope 3-Architectural Marvels 4-Heritage Conservation 5-Celebrating Unity in Diversity
Tuesday, April 16, 2024
Safdar Jang Tomb Delhi
Tuesday, February 20, 2024
Jamia Masjid Sakeena ul Sughra Jatoi MuzaffarGarh
اگر آپ جنوبی پنجاب کی سیاحت کو نکلیں ہیں تو جتوئی شہر کے ایک چھوٹے سے قصبے کوٹلہ رحم علی میں بنی سکینہ الصغریٰ مسجد دیکھے بنا گھر آنا یقیناً زیادتی ہو گی۔ مسجد کی بنیاد 31 جنوری 2006 میں ڈاکٹر اسماعیل احمد حسین بخاری نے اپنے چھوٹے بھائی سید شکیل احمد حسین کے ساتھ رکھی تھی۔ مسجد کا نام دونوں بھائیوں کی والدہ اور پھوپی کے ناموں کو جوڑ کر رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر بخاری جو 1975 سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک عرصے سے خواہش تھی کہ وہ اپنے آبائی علاقے میں ایک عظیم الشان مسجد قائم کریں۔ مسجد سکینہ الصغریٰ جسے نہ صرف ترک انجنیئر نے تعمیر کروایا بلکہ اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والا سامان اور کاری گر بھی ترکی سے ہی آئے۔ مسجد کو آیا صوفیہ کی طرز پر ہی تعمیر کیا گیا ہے۔ آپ جتوئی سے ڈیرہ غازی خان کو جاتی گاڑی میں اگر سوار ہوں تو آپ کو کوٹلہ رحم علی شاہ سٹاپ پر ہی اترنا پڑے گا۔ یہیں سے آپ کو مسجد کے بلند و بالا مینار بھی نظر آنا شروع ہو جائیں گے جن کی بلندی تقریباً 55 فٹ ہے۔ کوٹلہ سٹاپ سے تقریباً پانچ منٹ پیدل چلنے کے بعد آپ مسجد سکینہ الصغریٰ میں داخل ہو جائیں گے۔ مسجد کا رقبہ 52 ایکڑ ہے جس کے آغاز پر ہی دو بڑے بڑے لان ہیں۔ جہاں پودوں کی تراش خراش ایسے کی گئی ہے کہ بڑا سا لفظ اللہ اور اسمِ محمد وجود میں آ چکا ہے۔ مسجد تین منزلہ ہے۔ نماز نیچے والی منزل میں ہوتی ہے۔ اوپر والی دونوں منازل عام طور پر بند ہوتی ہیں جنھیں صرف سیاحوں کے لئے کھولا جاتا ہے۔ زیریں منزل کے علاؤہ آپ بالائی منزل سے بھی سیڑھیوں کے ذریعے مسجد میں داخل ہو سکتے ہیں۔ مرکزی ہال کے درمیان میں ایک بڑا سا جھومر لگا ہے جو واقعی میں مسجد کے ماتھے کا جھومر ہے۔ مسجد کے اندر آپ کو جنوبی پنجاب کا روایتی نیلا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ آپ اگر زیریں منزل سے مسجد میں داخل ہوں تو جھومر کے پاس جا کر لیٹ جائیں۔ آپ کی نگاہ سیدھا اوپر والے گنبد پر جائے گی۔ پہلی منزل کے ہال پر بالکل ویسے ہی چاروں خلفائے راشدین کے ناموں کے علاؤہ حضرت حسن اور حسین کے نام کی خطاطی کی گئی ہے جس طرح ترکی کی آیا صوفیہ میں ۔ مسجد کا گنبد بھی آیا صوفیہ جیسا ہے اور مینار بھی۔ مسجد پر پہلی نظر ڈالتے ہی آپ پہنچان جاتے ہیں کہ اسے آیا صوفیہ کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ مسجد کے ساتھ ہی ایک سکول بھی بنایا گیا ہے جہاں مستحق بچوں کو ہاسٹل کی سہولت بھی دی گئی ہے ۔ بچے سکول میں دینی تعلیم کے علاؤہ دنیوی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں۔ مسجد کو ڈیرھ سال کے قلیل عرصے میں تعمیر کیا گیا ہے۔
Tomb of Bibi Jawindi
جلال الدین بخاری سرخ پوش کے مزار کے ساتھ ہی ان کی پوتی بی بی جیوندی کا مقبرہ ہے۔ بی بی جیوندی کا مقبرہ خراسان کے حکمران محمد دلشاد نے پندرہویں صدی عیسوی کے آخر میں تعمیر کروایا تھا۔ یہ اوچ شریف کا ایک نمایا مقبرہ ہے۔ مقبرہ ہشت پہلو پر پکی اینٹوں سے بنایا گیا ہے جس کے ہر کونے پر برج ہیں۔ محراب والی کھڑکیوں والے چھوٹے ہشت پہلو پر ایک گنبد اوپر اٹھایا گیا تھا۔ بیرونی حصے کو سفید اور نیلے رنگ کی کاشی ٹائیلون سے مزین کیا گیا ہے ۔ گو کہ مقبرہ جزوئ طور پر منہدم ہو چکا ہے لیکن اس کا ہم آہنگ ڈیزائن اس کی اصل ترتیب کو تصور کرنا آسان بنایا ہے۔ مقبرے کا ڈیزائن ملتان میں شاہ رکن عالم کے مزار سے کافی ملتا جلتا ہے جو 1320 اور 1324 عیسوی کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا۔ 1817 عیسوی میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے مقبرے کی ساخت کو بدقسمتی سے کافی نقصان پہنچا تھا۔ یہ مقبرہ یونیسکو کی عالمی ثقافتی فہرست میں شامل ہے
Clock Tower Peshawar