اسی اور نوے کی دھائی میں، اپنے لڑکپن کے دور میں ہم نے دیکھا، راجہ بس اور ٹرک جی ٹی روڈ پہ توجہ کا مرکز ہوتے تھے۔ شوخ رنگوں، منفرد نقش و نگار، جانوروں اور پرندوں کی تصاویر، پھول پتیوں اور بیل بوٹوں سے سجی گاڑیاں، خصوصاً ٹرک جب سڑک سے گزرتے تو دیکھنے والوں کو متوجہ کرتے ۔۔۔ اور ان پہ لکھے اشعار، عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کی تصویر، ٹرک آرٹ کی پہچان اور ٹرک ڈرائیور کے ذوق کی زبان، بن جاتے۔
پاکستان میں ٹرک آرٹ کا آغاز ایک اندازے کے مطابق پچاس، ساٹھ کی دہائی میں ہوا۔ صوفی بزرگوں کی تصاویر سے خطاطی کے نمونوں تک کا سفر مختلف فن پاروں اور جدید ساز و سامان ٹرک کی تزئین و آرائش میں اضافہ کرتا گیا۔ پاکستانی ٹرک دنیا بھر میں، چلتے پھرتے کینوس کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ ٹرک ڈرائیور اپنے شب و روز ٹرک پہ گزارتے ہیں، ملک عزیز کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اور بسا اوقات بیرون ملک، لمبے لمبے سفر کرتے ہیں اور اکثر اکیلے ہوتے ہیں۔ ٹرک کی سجاوٹ میں شوخ، بھڑکیلے رنگوں، رومانوی شاعری یا دردِ جدائی کے اشعار ، تصاویر ، پرندے، جانور، پھول پتیاں اور نقش و نگار کا استعمال ۔۔۔ ایک منفرد داستان، بیان کرتا ہے۔ اسی لیے وہ اپنے ٹرک کو دلہن کی طرح سجانا چاہتے ہیں تاکہ سفر کی بوریت کو دور کر سکیں۔
"وقت نے ایک بار پھر، دُلہن بنا دیا"
ٹرک کو دلہن سے تشبیہ دیتے ہیں، ڈرائیور کیبن، ٹرک کا تخت و تاج اور ونڈ سکرین، ماتھے کی حیثیت رکھتی ہے۔ صبر، برداشت، حسرت، محبت ، درد بھرے اشعار اور نقاب میں چھپے خوبصورت چہرے یا بہادری کی داستانیں سناتے غیور نوجوان اور زخمی دل کی تصویر، جہاں تیر دل کے آر پار ہوں ۔۔۔۔۔ یہ سبھی ٹرک آرٹ کے موضوعات ہیں۔۔۔۔
"ماں کی دعا، جنت کی ہوا"
"ماواں ٹھنڈیاں چھاواں" ۔۔۔
"مائیں نی میں کنوں آکھاں، درد وچھوڑے دا حال نی "
"خیر نال جا، خیر نال آ "
"ھارن دو ، رستہ لو"
"دیکھ ۔۔۔۔ مگر پیار سے! "
"دل دل پاکستان "
"پخیر راغلے"
"رسوائے شہر ہوئے، دربدر ہوئے گھر سے"
اور اب کچھ جدید محاورے ۔۔۔۔ جیسے کہ
"سینز کچھ ایسے ہیں"
"گل ودھ گئی اے مختاریا" ۔۔۔۔ بھی شامل ہوتے چلے گئے ۔۔
پاکستان کے مختلف حصوں میں ٹرک آرٹسٹ موجود ہیں۔ جو ٹرکوں اور بسوں کی آرائش کا کام کرتے ہیں۔ ٹرک آرٹ پاکستان کا ایک مقبول ترین آرٹ کہا جاتا ہے، پاکستان میں ہمیشہ ہر طرح کے آرٹ کو پذیرائی ملی، بالخصوص پاکستانی ٹرک آرٹ نے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی ہے۔ اس آرٹ کی وجہ سے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل ہو چکی ہے ۔۔۔۔ اور ہماری ملاقات ایک ایسے آرٹسٹ سے ہوئی، جنہوں نے 'ٹرک آرٹ' کو اوج کمال پہ پہنچا دیا ۔۔۔۔ واجد ڈہرکی والا ۔۔۔۔۔
واجد علی ڈہرکی والا کے کریڈٹ پہ بے شمار کار ہائے نمایاں ہیں۔۔۔۔ اور ان میں سے ایک بے مثال کارکردگی اسلام آباد ایئرپورٹ پہ" دی گریٹ وال آف پاکستانی ٹرک آرٹ" کی صورت موجود ہے۔ اس پراجیکٹ پر اٹھارہ ماہ کا وقت لگا۔ 2017 جنوری سے آغاز ہوا اور جولائی 2018 میں یہ پراجیکٹ مکمل ہوا۔ پاکستان کے پینتیس 35 شہروں کے کم وبیش اسی 80 ماہر کاریگروں نے اس پراجیکٹ پر کام کیا۔ اس دوران واجد علی کو تیس ہزار کلومیٹر سے زائد اکیلے گاڑی چلانے کاموقع ملا۔ نہ دن دیکھا نہ رات۔
"میں نے بسوں، ٹرینوں اور ٹرکس کے سفر کیے ہیں۔ میں نے ایک گاڑی کی نگاہ سے پاکستان دیکھا اور یہ میری زندگی کے کامیاب تجربات میں سے ایک تھا۔ ان تجربات کی بنا پر میں نے مختلف ثقافتوں اور ان کے اظہار یئے کو دریافت کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ شوق مجھے نئے تجربات کی دنیا میں لے آیا اور مجھے زندگی میں آگے بڑھنا سکھایا۔" واجد علی کا بیانیہ۔۔۔
واجد علی ڈہرکی والا، سندھ کے شہر ڈہرکی میں پیدا ہوئے۔ نشینل کالج آف آرٹس، لاہور سے ایم اے کرنے کے بعد۔۔ یونیورسٹی آف گجرات میں آرٹ، ڈیزائن اینڈ آرکیٹیکچر کے شعبہ میں "اسسٹنٹ پروفیسر" کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ انہوں نے 1095 ڈرائنگز کی انسٹالیشن کے ساتھ کراچی Bienalle - KB 17 میں شرکت کی۔ ملبورن، آسٹریلیا میں 2006 Commonwealth Games کے لیے پروجیکٹ 11 – W کراچی ٹو ملبورن پروجیکٹ کے کلیدی ممبر تھے۔ انہوں نے 2018 میں نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پاکستانی ٹرک آرٹ کی گریٹ وال بنائی۔ انہوں نے 2023 میں یورپی یونین – یو روڈ شو ٹرک 'دوستی کا سفر' ڈیزائن کیا اور کوآرڈینیٹر بھی بنے اور ملک بھر میں اس پاکستانی بیڈفورڈ راکٹ اسٹائل ٹرک پر 36 دنوں کے لیے سفر کیا۔ ڈہرکی والا نے ملک بھر میں کئی قومی اور بین الاقوامی نمائشوں میں شرکت کی ہے۔ وہ کراچی یونیورسٹی کے ثقافتی آرٹ ہسٹری میں پی ایچ ڈی کے اسکالر بھی ہیں۔ ڈھرکی والا پاکستان کے شہر گجرات میں رہتے اور کام کرتے ہیں۔ اور صحیح معنوں میں اثاثۂ پاکستان ہیں۔
ٹرک آرٹ کے حوالے سےدلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں کوئی ڈیزائنر نہیں ہوتا۔ بلکہ تمام نقش و نگارٹرک آرٹسٹ کے ذہن کی اختراع ہوتے ہیں۔ وہ اپنی سوچ سے ڈیزائن کو رنگوں کے ذریعے ٹرک کے کینوس پر بکھیر دیتا ہے۔ حکومت پاکستان نے ٹرک آرٹ کے اس فن کو قومی ورثے کا درجہ دے دیا۔جس سے ٹرک آرٹ اور ٹرک آرٹسٹس کو دنیا بھر میں پہچان اور پذیرائی حاصل ہو چکی ہے۔
عمران احسان
No comments:
Post a Comment