نادرہ بانو بیگم شہشاہ جہانگیر کی پوتی اور شہزادہ پرویز کی بیٹی تھیں. ان کی پیدائش کا سال 1618 شمار کیا جاتا ہے. ان کی شادی مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے سب سے بڑے بیٹے اور ولی عہد داراشکوہ سے ہوئی تھی. شاہ جہاں کی زندگی میں ہی اس کے بیٹوں کے درمیان تخت کی جنگ شروع ہو گئی اور داراشکوہ کو راہِ فرار اختیار کرنی پڑی. نادرہ بانو بیگم اسی غریب الوطنی میں بلوچستان کے علاقے میں اسہال کی بیماری سے جون 1659ء میں انتقال کر گئیں. نادرہ بانو بیگم کو حضرت میاں میر سے روحانی عقیدت تھی اس لیے داراشکوہ نے ان کی میت لاہور روانہ کر دی. جہاں اسے حضرت میاں میر کے مزار کے قریب دفن کیا گیا.
نادرہ بانو بیگم کا یہ مقبرہ ایک تالاب کے درمیان تعمیر کیا گیا جو مدت ہوئی خشک ہو چکا ہے. یہ مقبرہ مربع شکل میں تعمیر کیا گیا ہے اور دو منازل پر مشتمل ہے جبکہ مرکزی حصے کو ایک ہی منزل کی شکل میں رکھا گیا ہے. مقبرے کی اندرونی دیواروں پر چھت کو غالب کاری اور منقش طاقچوں سے مزین کیا گیا تھا.
کہتے ہیں تاریخ اپنے اپ کو دہراتی ہے۔ زیر نظر تصویر دربار میاں میر کے پاس مقبرہ شہزادی نادرہ بیگم کا ہے جو کسی زمانے میں ہرن مینار کی طرح پانی کے اندر بنایا گیا تھا۔ افتاد زمانہ کے ساتھ یہ تالاب ختم ہوگیا پھر کاشت ہوتی رہی اب عرصہ دراز سے کرکٹ ہو رہی تھی اب بارشوں کے پانی نے ایک بار صدیوں پرانا منظر آنکھوں کے سامنے لاکھڑا کیا۔
ایک طرف واسا کا پمپ ارد گرد کے علاقے سے جمع شدہ پانی نکال کر اس گراؤنڈ میں بھر رہا ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا محکمہ آثار قدیمہ کی محفوظ ورثے کی اس عمارت کے ساتھ یہ سلوک جایز ہے کہ اسے پانی سے ڈبو دیا جاے اور علاقے کو ڈینگی کی آماجگاہ بنا دیا جاے ۔ کیا اس پر محکمہ آثار قدیمہ یا پاکستان پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی کوی ایکشن لے گی ؟؟
No comments:
Post a Comment