1848 میں ہونے والی سکھ انگریز جنگ کے دوران Vans Agnew اور William Alexander نامی دو نوجوان برطانوی فوجی مارے گئے جنھیں پہلے ملتان کی خونی برجی کے قریب دفن کیا گیا۔ ان دونوں فوجیوں کی منفرد بات یہ تھی کہ دونوں ہی نوجوان تھے اور دونوں نے ہی بڑی بہادری سے سکھوں کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ دونوں نے ہی اپنے ملک کے وقار کی خاطر اپنی جان دی۔ بعد میں دونوں فوجیوں کے جسدِ خاکی کو نکال کر ملتان قلعہ کے قریب دفن کیا گیا اور ان کی یادگار بنائی گئی۔
اب اگر خونی برجی کا ذکر چل ہی پڑا ہے تو ملتان کی کچھ تاریخ پر بھی بات ہو ہی جائے۔ ملتان کی تاریخ کم از کم چھ ہزار سال پرانی ہے۔ تاریخ تو اس کی اس سے بھی زیادہ پرانی ہے مگر چھ ہزار سال وہ ہیں جن میں تسلسل سے ملتان کا ذکر ملتا ہے کہ مسلسل چھ ہزار سالوں سے ملتان یہی پر ہے۔ تقریباً بارہ ہزار سال پہلے بھی ملتان تھا مگر درمیان میں یہ مٹتا بھی رہا اور آباد بھی ہوتا رہا۔ چھ ہزار سال پہلے اسے آباد کرنے کا سہرا ہندو راجہ کاشی کے سر ہے ۔ اسی راجہ کاشی کے نام پر اس شہر کو کاشی پورہ کہا جاتا تھا۔ 327-325 قبل مسیح وہ دور تھا جو سکندر اعظم نے برصغیر میں گزرا ۔ اسی دور میں ایک قوم مالی تھی جو کاشی پورہ میں آباد تھی۔ استھان ظاہر سی بات ہے کسی جگہ بیٹھ جانے یا قیام کرنے کو کہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے اسے مالی استھان کہا جاتا تھا۔ یہ قوم سورج کی پوجا کرتی تھی۔ روایت ہے کہ مالی قوم کے ہاتھوں سکندر کو شکت ہونے لگی تو وہ خود اگلی صفوں میں جا کر لڑنے لگا۔ اسی دور کسی نا معلوم سمت سے زہر پوشیدہ تیر سکندر کی ریڑھ کی ہڈی میں لگا جسے اس وقت نکال تو دیا گیا مگر زہر رفتہ رفتہ اپنا کام کرنے لگا۔ سکندر کو زخمی حالت میں دیکھ کر فوج میں جذبے اور غصے کی ایک نئی لہر جاگی اور پھر انھوں نے ایسے بے دردی سے سب انسانوں اور جانوروں کا قتلِ عام کیا کہ ہر جگہ خون سے بھر گئی ۔ اسی مناسبت سے آج بھی اس جگہ کو خونی برجی کہا جاتا ہے۔ یہاں سے یونان واپس جاتے ہوئے بابل کے مقام پر جب سکندر کا انتقال ہوا تو اس کی وجہ وہی زہر تھا جو تیر کی صورت میں مالی استھان میں اس کے جسم میں اترا تھا۔ یوں تقریباً 32 سال کی عمر میں ہی پوری دنیا پر حکومت کا خواب لئے سکندر اس دنیا سے رخصت ہوا۔ سکندر کے بعد چندر گپت موریا نے بھی اس علاقے کو فتح کیا۔ ہولی کا تہوار بھی ملتان سے ہی شروع ہوا۔ یہاں ایک بڑا مندر بھی تھا جہاں سالانہ میلے میں کم از کم چھ ہزار یاتری شریک ہوتے۔ مندر سونے سے بھرا ہوا تھا۔ 712ء میں محمد بن قاسم نے سندھ اور ملتان کو اسی مندر سمیت فتح کر لیا۔
No comments:
Post a Comment