Saturday, February 10, 2024

Darbar Mian Latif Dullewala Bhakkar

 















ضرت میاں لطیف کی ولادت پاک دیندار گھرانے میں ہوئی۔آپ کے اباو اجداد ریاست بہاولپور کے قلعہ لال کوٹ کے رہائشی تھے۔ آپ کے دادا گل جمال بڑے عالم دین ' فارسی عربی کے کاتب راوی تھے۔ آپ کا انتقال سن1568 کو ہوا اور وہیں دفن ہوئے۔آپ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔بیٹی اوائل ہی میں انتقال فرماگئیں جبکہ دو بیٹوں میں بڑے کا نام میاں اشرف جمال اور چھوٹے بیٹے کا نام میاں گل عرف گلن تھا ۔ دونوں بھائی راجہ حوت سنگھ کے ظلم وستم سے مجبور ہوکر ہجرت کر گئے۔بڑے میاں اشرف جمال کروڑ لعل عیسن آ پہنچے جوکہ غیر شادی شدہ تھے۔22سال کی عمر میں ہی انتقال فرما گئے جوکہ مقامی قبرستان میں سپردخاک ہیں۔
میاں گل عرف گلن چھوٹے بھائی جو پندرہ برس قبل ہجرت کے بعد راجن پور سے کروڑ لعل عیسن ضلع لیہ تشریف لائے ہوئے تھے۔اس وقت آپکی عمر 20 برس تھی۔ آپ نے اپنے بھائی کی وفات کے چند دن بعد رخت سفر باندھ لیا۔ ضلع لیہ کو حد پار کرتے ہوئے ضلع بھکر میں دلے والا کے ریگستان کا ویرانہ جنگل بنی اور وہ بھی صرف تین چار انسانوں کا ویران ٹیلے پر ڈیرہ جس کو آجکل چاہ چدرام کہتے ہیں، آل کی آخری منزل ثابت ہوا۔

ن لوگوں کی سادگی اورشفقت آپ پر اس حد تک غالب آئی کہ آپ اپنی چدرام قومیت کی بجائے جٹ کہلانے لگے۔انہی لوگوں میں آپ نے شادی کی آپ کی پرہیز گاری ' حقوق اللہ' اورحقوق العباد " کی پاسداری' میں اپنی زندگی بسر کی۔ آپ ایک درویش صفت' متقی' اور فیاض دل انسان تھے۔
اس دور یعنی سن 1600ء کے اوائل میں یہ علاقہ سردار عبداللہ خان بلوچ کی ریاست میں شامل تھا اور اس نے روحانی شخصیت قاسم شاہ کو ریاست کا نائب مقرر کیا( قاسم شاہ خود بزرگ ہو گزرے ہیں جو امام بلی کے نام سے مشہور ہوئے اور موجودہ قبرستان امام بلی میں مدفون ہیں) ۔جب اس علاقہ میں موجودہ شہر دلے والا کے کوٹ ( قلعہ) اور غریب شاہ کے دربار کے متصل جانب جنوب عبداللہ خان نے ایک نیا کنواں کھدوایا تو پھر قاسم شاہ کی خواہش پر میاں گل عرف گلن نے اس کنویں کو آباد کیا ۔اس وقت یہاں کوئی بستی آباد نہ تھی۔آپ نے ہی اس جگہ کو آباد کیا جوکہ پہلے کوٹ دلہ کے نام سے شروع ہوتی ہوئی آہستہ آہستہ دلےوالا کہلانے لگی۔جوک آجکل ایک بہت بڑا شہر ہے ۔
حضرت میاں گل عرف گلن کی پاکیزگی اور ایمانداری ہوئے سردار عبداللہ نے آپ کو دوگھوڑے بطور تحفہ پیش کئے مگر حضرت نے یہ کہ کر ٹھکرا دیا کہ""" یہ کسی دنیا دار کو دو ہم فقیروں کا ایسے تحفوں سے کیا تعلق""""حضرت گل عرف گلن نے 110 برس کے قریب عمر پائی اور بلآخر سن 1670ء میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔آپ کی قبر چاہ چدرام کے ریگستان میں جلوہ گر ہے۔

پ کے ہاں تین بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی بڑے کا نام میاں فاضل منجھلے کا نام میاں اشرف اور اور آخری فرزند کا نام میاں لطیف تھا کہ جن کی ولادت سن 1660ء میں ہوئی۔آپ حضرت 6 سال کی عمر میں بھکر کے مدرسہ محمدیہ جا پہنچے اور اس زمانے کے استاد میاں فخر زمان کی شاگردی میں پڑھنا شروع کیا۔آپ 4 سال بھکر رہے پھر اس کے بعد ضلع خوشاب کے قصبہ بندیال کے مدرسہ رحیمیہ میں داخل ہوگئے۔اور استاد محترم فضل کریم اور دین محمد بھچر کی شاگردی میں پڑھنے لگے۔
آپ نے 5سال بندیال میں حفظ قرآت کا سبق پڑھا اور جلد ہی آپ پر بے شمار تجلیات کا نزول ہونا شروع ہو گیا ۔آپ نے مدرسہ میں دوران شاگردی چند کرامات دکھائیں جو کہ تاریخ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔آپ کے استاد محترم فضل کریم کہتے تھے کہ میں نے 1000 کے قریب طالب علموں کو علم کی روشنی سے بہرہ ور کیا لیکن میاں لطیف جیسا نرالا شاگرد نہ پہلے دیکھا اور نہ ہی بعد میں آپکی ذات گرامی دنیا کی ہر بات سے مبرا تھی آپ نازعالم میں رہتے۔کمسنی کا یہ عالم تھا کہ جہاں بھی جاتے عزت و احترام ملتا۔ آپ کی وفات دلیوالا میں ہوئی اور آپ کی قبر میاں لطیف قبرستان میں ہے۔

No comments:

Post a Comment