ھکر سے خانسر روڈ پر سفر کریں تو کراڑی مائنر اور 36 کھوکھا کے درمیان ایک سٹاپ ہے جس کا نام میاں پنجہ کا سٹاپ یا پھر بستی میاں پنجہ کی طرف جانے والی سڑک بھی کہا جاتا ہے۔ تھوڑا سا پیدل چل کر بستی میاں پنجہ کی آبادی کے دوسری جانب حضرت میاں پنجہ سلطان رحمتہ اللہ علیہ کا مزار ہے۔ میاں پنجہ سلطان صاحب 1662ء میں سندھ سے ہجرت کر کے تھل تشریف لائے تھے۔ ان دنوں ریاست منکیرہ میں جسکانی بلوچوں کی حکومت تھی۔پانی کا ذریعہ صرف کنویں تھے اور پانی گہرائی میں ملتا تھا۔ تھل میں آباد قبائل کے اپنے کنویں ہوتے تھے۔ میاں پنجہ صاحب پہلے پہل سندھ سے ہجرت کر کے خوشاب پہنچے، حضرت میاں پنجہ سلطان صاحب اور ان کے ساتھ موجود دوسرے فقراء ایک جگہ کچھ عرصہ گزارنے کے بعد دوسری جگہ ہجرت کر جاتے۔ ان ہی دنوں جب یہ قافلہ قصبہ بھکر کے مشرق کی طرف ایک جگہ پہنچا جہاں ایک ہندو خاتون چھتی مائی نامی رہتی تھی جو اس علاقہ کی بہت بڑی جاگیردار خاتون تھی یہ خاتون میاں پنجہ سلطان کی معتقد ہو گئی اور حضرت صاحب کے گزر اوقات کیلئے ایک کنواں بمعہ رقبہ حضرت سلطان پنجہ صاحب کو عنایت فرمایا اور یہ رقبہ آج بھی حضرت صاحب کی اولاد کے پاس موجود ہے جس سے ان کی گزر بسر ہوتی۔ بعد میں یہ خاتون مسلمان ہو گئی۔ چھتی مائی کا خاندان آج بھی اس علاقہ میں رہائش پزیر ہے جو چھتانہ کے نام سے موجود ہے۔ان کے ایک بزرگ امام بخش چھتانہ مرحوم کافی مشہور شخص تھے۔ حضرت میاں پنجہ سلطان صاحب کی تبلیغ سے متاثر ہو کر تھل کے کئی قبیلوں نے اسلام قبول کیا جن میں اس علاقہ کے سرکردہ خاندان اولکھ نے سکھ مذہب سے اسلام قبول کیا۔ گوکل جو اس وقت سکھ مذہب کے ماننے والوں کا گڑھ تھا اور اکثریت نے حضرت میاں پنجہ سلطان کی محنت سے اسلام قبول کیا۔ انہی دنوں اولکھ برادری سے ایک شخص جس کا اسلامی نام خدا بخش رکھا گیا تھا نے اپنے ہاتھ سے مٹی کا پیالہ بنا کر حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیا،حضرت صاحب نے خوش ہوکر دعا فرمائی کہ اللہ پاک اپکے کاروبار میں برکت عطاء فرمائے،حضرت صاحب کی دعا کے بعد اس شخص کا برتنوں کا کاروبار خوب چل نکلا اور آج بھی بستی میاں پنجہ کے کمھار مشہور ہیں جن کے پاس آج بھی شجرہ نسب محفوظ ہے۔ حضرت میاں پنجہ سلطان کی اولاد آج بھی بستی میاں پنجہ میں رہائش پزہر ہے۔ حضرت میاں پنجہ سلطان کے بیٹے سلطان محمود چشتی رحمتہ اللہ علیہ کا مزار کلول تحصیل کلورکوٹ میں موجود ہے
No comments:
Post a Comment