آپ ملتان شہر کی گلیاں گھومتے جائیں تو تقریباً ہر گلی میں آپ کوئی نہ کوئی چھوٹا یا بڑا، مشہور یا گم نام مزار ضرور ملے گا۔ مزاروں کے علاؤہ چند ایک گلیوں میں آپ کو مساجد بھی نظر آئیں گی۔ ملتان میں گھنٹہ گھر کے قریب ہی تغلق روڈ کے پاس تغلق خاندان کا آباد کیا ہوا ہے ایک علاقہ ہے جس کی تنگ و چست گلیوں میں ایک ساوی مسجد ہے۔ ساوی مسجد بھی ملتان کی روایتی عمارات کی طرح نیلی ہے۔ سرائیکی زبان میں نیلے رنگ کو ساوی بھی کہا جاتا ہے، اس لئے اس مسجد کا نام بھی ساوی مسجد ہے۔ ساوی مسجد کی تعمیر کے بارے دو روایات ہیں ۔ ایک یہ کہ اسے محمد بن تغلق نے 1305 عیسوی میں بنوایا تھا ۔ دوسری یہ کہ اسے شاہ جہاں یا عالم گیر کے زمانے میں تعمیر کیا گیا ہے۔ ساوی مسجد کے بارے ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اسے عید گاہ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس لیے آپ کو ساوی مسجد پر کوئی چھت نظر نہیں آتا۔ نہ تو اس مسجد کا کوئی مینار ہے اور گنبد۔ وجہ وہی ہے کہ اسے بناتے وقت عید گاہ کی طرز پر ہی تعمیر کیا گیا تھا۔
آپ اگر ساوی مسجد میں جائیں تو آپ کو وہاں تین قبریں نظر آئیں گی۔ دو قبریں ایک ساتھ ہیں جبکہ ایک قبر جدا ہیں۔ جو دو قبریں ایک ساتھ ہیں، ان میں سے ایک قبر ملتان کے گورنر کی ہے۔ ان دونوں قبروں کے مکینوں نے ریاست کے ساتھ غداری کی تھی جس کے جرم میں ان کی کھال کھنچوا کر انھیں مار دیا گیا۔ قبروں پر فارسی میں کچھ لکھا ہے جس میں غدار لفظ بھی نمایاں ہے۔ سزا کے طور پر قبروں پر تختیاں بھی پاؤں کی طرف لگائی گئی ہیں۔ ایک جانب ایک تیسری قبر بھی ہے جو ملتان کے قاضی سلطان کریم الدین کی ہے۔ کہتے ہیں کریم الدین نے جان بوجھ کر ایک غلط فیصلہ کیا تھا جس کی بنیاد پر بادشاہ / حکمران وقت نے انھیں پھانسی دے دی تھی۔
ساوی مسجد کے چاروں اطراف دیواروں پر نیلے اور فیروزے رنگ سے فارسی اشعار لکھے ہوئے ہیں۔ آج ساوی مسجد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ کہتے ہیں کہ محکمہ آثار قدیمہ نے اس کی بحالی کے لیے فنڈز بھی جاری کئے تھے جن میں سے زیادہ تر دائیں بائیں ہو گئے
No comments:
Post a Comment